رواں سال 29 ہزار تارکین وطن کا غیر قانونی طریقے سے برطانیہ پہنچنے کا انکشاف
برطانیہ میں غیر قانونی تارکین وطن کی آمد میں ریکارڈ اضافہ، رواں سال 29 ہزار سے زائد افراد داخل
برطانیہ میں غیر قانونی آمد کا بڑھتا ہوا سلسلہ
برطانیہ اس وقت غیر قانونی تارکین وطن کے ایک بڑے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ برطانوی میڈیا کی تازہ رپورٹ کے مطابق رواں سال 2025 کے دوران اب تک 29 ہزار سے زائد افراد چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اور حکومتی اداروں کے لیے ایک سنگین چیلنج کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
پچھلے سال کے اعداد و شمار کے ساتھ موازنہ
رپورٹ کے مطابق، 2024 میں اگست تک برطانیہ میں غیر قانونی داخل ہونے والوں کی تعداد تقریباً 21 ہزار تھی۔ اس سال یہ تعداد آٹھ ماہ کے دوران ہی 29 ہزار تک پہنچ گئی ہے، جو اس مسئلے کی سنگینی کو واضح کرتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ نہ صرف امیگریشن سسٹم پر دباؤ بڑھا رہا ہے بلکہ ملک کی سماجی اور معاشی صورتحال پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔
کراچی: دوپٹہ جلنے پر کمسن ملازمہ کو استری سے جلادیا گیا، میاں بیوی گرفتار
غیر قانونی آمد کے راستے اور مشکلات
زیادہ تر تارکین وطن چھوٹی کشتیوں کے ذریعے فرانس سے برطانیہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سفر انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے کیونکہ کھلے سمندر میں یہ کشتیاں اکثر حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ متعدد افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں جبکہ زندہ بچنے والوں کو امیگریشن قوانین کے باعث طویل مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
برطانوی حکومت کی تشویش اور اقدامات
اس بڑھتے ہوئے بحران نے برطانوی حکومت کو سخت اقدامات کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہوم سیکرٹری شبانہ محمود نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انسانی اسمگلرز برطانیہ کی سرحدی سیکیورٹی کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ ان کے مطابق ایسے عناصر لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال کر غیر قانونی طور پر ملک میں داخل کرنے میں ملوث ہیں۔
فرانس کے ساتھ معاہدہ اور ملک بدری کی تیاری
ہوم سیکرٹری نے مزید کہا کہ فرانس کے ساتھ ون آن ون معاہدے کے تحت جلد ہی غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری شروع کی جائے گی۔ اس اقدام کا مقصد غیر قانونی آمد کو روکنا اور انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کو توڑنا ہے۔ حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ غیر قانونی طریقے سے آنے والوں کو شہریت دینا یا مستقل رہائش دینا تقریباً ناممکن ہوگا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت کی سخت پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن میں بڑی تعداد ان افراد کی ہوتی ہے جو جنگ، غربت یا مظالم سے بچ کر پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کو بنیادی انسانی حقوق اور قانونی تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی زندگی مزید خطرے میں نہ پڑے۔
برطانیہ کی سماجی اور معاشی صورتحال پر اثرات
غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کا ایک اہم پہلو برطانیہ کی معاشی اور سماجی صورتحال ہے۔ ماہرین کے مطابق بڑی تعداد میں تارکین وطن کی آمد سے مقامی وسائل پر دباؤ بڑھتا ہے۔ رہائش، صحت اور تعلیم جیسے شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی تارکین وطن برطانیہ کی معیشت میں مزدور کی حیثیت سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مستقبل کے چیلنجز
برطانیہ میں غیر قانونی امیگریشن ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے نہ صرف سخت قوانین بلکہ بین الاقوامی تعاون بھی ضروری ہے۔ یورپی ممالک کے ساتھ مؤثر حکمت عملی اپنائے بغیر اس مسئلے پر قابو پانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، انسانی اسمگلرز کے نیٹ ورکس کو توڑنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور خفیہ آپریشنز کی ضرورت ہے۔
نتیجہ
رواں سال برطانیہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد 29 ہزار سے زائد ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مسئلہ دن بدن پیچیدہ اور سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ برطانوی حکومت سخت قوانین اور ملک بدری جیسے اقدامات کے ذریعے اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے، مگر انسانی ہمدردی اور حقوق کے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہ مسئلہ نہ صرف برطانیہ بلکہ پورے یورپ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، اور اس کا حل مشترکہ حکمت عملی، مؤثر قانون سازی اور انسانی حقوق کے احترام میں ہی پوشیدہ ہے۔